ایبٹ آباد کنکریٹ کا شہر بن گیا۔ تاریخی عمارتیں ختم کرنے کا سلسلہ جاری۔

ایبٹ آباد(وائس آف ہزارہ)ماحولیات اور تاریخی عمارتوں کیلئے جدوجہد کرنے والے مرد مجاہد محمود اسلم نے کہاہے کہ ایبٹ آباد کنکریٹ کا ڈھیر بنا دیا گیا ھے۔ یہ جو چند درخت نظر آ رہے ہیں یہ کمشنر ہاؤس اور اس کے ساتھ واقع اس پتھر کے بنے سول سرجن آف ہزارہ کے بنگلے میں موجود ہیں۔2006ء میں ہماری ان تھک محنت اور سابق چیف سیکرٹری اعجاز رحیم صاحب کی ذاتی دلچسپی کے نتیجہ میں دی نیوز اخبار کے انصار عباسی صاحب نے راقم کی ورثہ کی خاطر بھاگ دوڑ کا ذکر اپنے انگریزی اخبار کے فرنٹ پیج پر کر دیا۔جس کے نتیجے میں فیڈرل کلچر و آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ نے اسی دن کمشنر ہاؤس ایبٹ آباد کو نیشنل ہیریٹیج ڈکلیُر کر دیا اور اوپر نظر آنے والے سول سرجن کے بنگلہ کو محفوظ ورثہ قرار دینے کے عمل کا آغاز کرنے کا لیٹر ایشو کر دیا۔

سپیکر مشتاق غنی صاحب نے اپنی ٹھیکہ دار فیملی کو نوازنے کی خاطر ایبٹ آباد کے ہر کونے میں کنکریٹ ڈلوا دیا ھے۔ ان کے دوست طارق سابق ڈائریکٹر سپورٹس کمشنر ہاؤس کے سامنے ملک پورہ کے مکین ہیں۔ انہوں نے پوری کوشش کی کہ کمشنر ہاؤس کے لان پر قبضہ کر لیا جائے اور وہاں اپنے ووٹرز کو خوش کرنے کے منصوبے بنا دےُ جائیں۔۔ مگر بوجہ محفوظ ورثہ ہونے کے وہ ایبٹ آباد کے بچ جانے والے کنکریٹ کیاس شہر کے ان پھپڑوں یعنی درختوں کو تباہ نا کر سکے۔۔ ساتھ واقع سول سرجن کے بنگلہ کو ورثہ قرار دینے کا کیس اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبائی محکمہ آثار قدیمہ کے محکمہ کو دس سال پہلے منتقل ہوا۔ آج تک تاریخی عمارات کو محفوظ ورثہ قرار دینے کے عمل پر کوئی کام صوبائی محکمہ نے نہیں کیا اور اس دوران ڈی سی کی شاندار عدالتوں، کینٹ آفس کو گرا دیا گیا۔

ایبٹ آباد کلب، مونا لیزا ریسٹورنٹ، لیڈی گارڈن کے قدیم اوریجنل حلیہ اور لینڈ سکیپ کو تباہ کر دیا گیا۔۔ اب سپیکر مشتاق غنی اور ان کے ووٹر سول سرجن کے اس درختوں بھرے بنگلہ میں سپورٹس کمپلیکس کی اجازت لینے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ تحفظ نوادرات و ورثہ کے قانون کے مطابق تاریخی عمارت کے ارد گرد دو سو میٹر تک نئی تعمیرات محکمہ آثار قدیمہ کی اجازت کے بغیر نہیں ہو سکتیں۔ ہیریٹیج کمشنر ہاؤس اور ساتھ واقع سول سرجن کا بنگلہ اور ان کے گرد تاریخی اور نایاب درخت قومی ورثہ ہیں۔ یہ واحد سبز علاقہ ھے جو کنکریٹ کے اس ڈھیر میں بچ گیا ھے۔ سیکرٹری کلچر و آٹار قدیمہ عابد مجید صاحب راجہ سعد کے کولیگ اور دوست ہیں۔ ہم درخواست کرتے ہیں کہ وہ وفاقی حکومت کا سن دو ہزار چھ کا مندرجہ ذیل خط واٹس ایپ کے ذریعہ ان کو بھیج دیں اور ان کو سول سرجن آف ہزارہ کے بنگلہ کو محفوظ ورثہ قرار دینے کے عمل کو مکمل کرنے کا کہیں۔ پنجاب اور سندھ حکومتوں نے ہزاروں تاریخی عمارات تاریخی ورثہ قرار دی ہوئی ہیں جب کہ ہزارہ میں صرف ایک عمارت یعنی کمشنر ہاؤس کو وفاقی حکومت نے قومی ورثہ قرار دیا تھا۔ ایبٹ آباد کے یہ چند بچ جانے والے درخت اور قدیمی لینڈ سکیپ ہمیں مدد کے لئے پکار رہے ہیں۔


یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

زیادہ پڑھی جانے والی خبریں

گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران

نیوز ہزارہ

error: Content is protected !!