صفائی کے معاملے میں شہریوں کی اصلاح کی ضرورت ہے۔

رپورٹ: حمداللہ خان۔

ایبٹ آباد میں جگہ جگہ گندگی کے ڈھیرجو تعفن اور بیماریاں پھیلا رہے ہیں۔ ہم میں سے کسی نہ کسی کو تو آواز اٹھانا ہو گی۔ایبٹ آباد میں کئی وزراء کے ہوتے ہوئے بھی جگہ جگہ گندگی کے ڈھیرے نظر آتے ہیں جس سے تعفن اور کئی قسم کی بیماریاں جنم لیتی ہیں اور جس سے شہر کی خوبصورتی بھی ماند پڑتی ہے۔ویسے افسوس اس بات کا ہے کہ ایبٹ آباد کے وزراء کے ہوتے ہوئے بھی اس گندگی کو ٹھکانے لگانے کی طرف کسی کا دھیان نہی دیا گیا۔
عام کہاوت ہے کہ صحت مند جسم، صحت مند دماغ پیدا کرتا ہے اور صحت مند دماغ صحت مند قوم پیدا کرتے ہیں اور صحت مند قوم ہی سماجی و سیاسی انقلابات پیدا کرتی ہے۔تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ جسمانی اور فکری طور پر بیمار قوم نے عظمت و عروج حاصل کیا ہو۔لہذا صحت مند جسم بنانے اور صحت مند قوم بننے کے لیے صاف ستھرا ماحول اور صاف ستھری فضا درکار ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں تہذیب یافتہ معاشروں میں اور غیر مہذب معاشروں میں ایک بنیادی فرق جو پہلی نظر میں سجھ میں آتا ہے وہ صفائی اور گندگی کاہے۔ اگرچہ صفائی نصف ایمان کہلاتی ہے مگر ہمارے ملک میں صفائی ستھرائی کا مناسب انتظام سب سے بڑا مسئلہ ہے لوگوں کا جہاں دل کرتا ہے وہاں پر ہی کوڑا پھینک دیتے ہیں جس سے ماحول بھی آلودہ ہوتا ہے ہر گلی اور کونے میں کوڑے کا ڈھیر نظر آتا ہے جو بیماریوں کی سب سے بڑی وجہ بنتا ہے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر کئی کئی دنوں تک گلیوں میں پڑے رہتے ہیں اور انتظامیہ اس طرف کوئی توجہ نہیں دیتی۔ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ ملک ہمارے گھر کی مانند ہے اور اپنے گھر کو صاف ستھرا رکھنے میں عوام اور انتظامیہ کو مل کر کردار ادا کرنا ہو گا حکومت کو بھی چاہیے کہ جن علاقوں میں صفائی ستھرائی کا مناسب انتظام نہیں ہے وہاں پر عملے مقرر کیا جائے اور عوام کو بھی سمجھنا ہو گا کہ جب تک وہ اپنے فرائض ادا نہیں کریں گے تب تک صفائی ستھرائی کو یقینی نہیں بنایا جا سکے گا۔

حکومت سے لے کر ہر شہری پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ گلی محلوں کی صفائی میں اپنا کردار ادا کرے۔اس ضمن میں علاقہ مکینوں کے بعد اہم کردار بلدیاتی اداروں کا ہے جو کہ پورا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ ان اداروں کا سٹاف باقاعدگی سے گلی محلوں کا چکر نہیں لگاتا بلکہ اعلی افسران کے گھروں میں کام کرتا نظر آتا ہے۔اگر یہ سٹاف گلی محلوں کا چکر لگا بھی لے تو علاقہ مکینوں سے کوڑا کرکٹ اٹھانے کے لیے معاوضہ طلب کرتا ہے۔ جب تک لوکل گورنمنٹ کے منتخب ادارے موجود نہیں ہوں گے، منتخب نمائندے نہیں ہوں گے، یونین کونسلز نہیں ہوں گی، گلی محلوں کی صفائی کیسے ممکن ہو گی کوڑا کرکٹ کے علاوہ علاقہ مکینوں کو جوسب سے اہم مسئلہ درپیش ہوتا ہے اس میں بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کے مطابق نئے ترقیاتی منصوبوں کا سرکاری املاک کی دیکھ بھال تعمیر و مرمت جیسی اہم ذمہ داریاں شامل ہیں۔ سڑکوں گلیوں کی کھدائی کرتے وقت ہمارے ہاں شہری اکثر اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے۔ پختہ گلیوں، سڑکوں سے گیس، پانی یا سیورج کا کنکشن لیتے وقت لوگ اپنا کام تو نکال لیتے ہیں لیکن دیگر لوگوں کے لیے مسائل کھڑے کر دیتے ہیں روڈ کٹ کی جگہ مرمت کی بجائے مٹی اور اینٹوں کی ڈھیریاں ویسے ہی پڑی رہتی ہیں جس کی وجہ سے راہ گیروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گٹر، سوئی گیس اور پانی کے معاملات کو بہتر بنانے کے ضمن میں کی جانی والی کھدائی کے بعد جگہ کو کلیئر کرنا ہماری اولین ذمہ داری ہے۔ ہر قسم کی کھدائی بلدیاتی اداروں کی اجازت سے ہونی چاہیے تا کہ یہ دیکھا جائے کہ متعلقہ کام کی کھدائی کی وجہ سے راستہ تنگ تو نہیں ہو جائے گا گلی تو تنگ نہیں ہو جائے گی راستہ تو کم نہیں ہو جائے گا آمدروفت میں مسائل تو پیش نہیں آئیں گے بارش کا پانی تو نہیں رک جائے گا ہمارے ہاں ہر کوئی اپنی من مانی کرنے میں لگا ہوتا ہے جس کا جو دل چاہتا ہے کرتا ہے یہ وہ مسائل ہیں جن کی وجہ سے نہ صرف گلی محلوں کا حسن خراب ہوتا ہے بلکہ راہ گیروں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتاہے۔کب تک ہم اپنی ذمہ داریوں سے رو گردانی کرتے رہیں گے ہم اگر مسائل حل کرنے کے لیے خود آگے نہیں بڑھیں گے تو یہ مسائل جوں کے توں رہیں گے۔ علاقہ مکینوں کو دیکھنا چاہیے کہ کہاں کہاں کون غفلت کا مظاہرہ کر رہا ہے۔پوری دنیا میں بلدیاتی نظام مضبوط ہونے کی وجہ سے اس قسم کے مسائل دیکھنے کو نہیں ملتے۔ہمارے ہاں قوانین تو موجود ہیں لیکن ان پر عملدرآمد کی ضرورت ہے تجاوزات کو ہٹانے کے لیے جب مہم چلتی ہے تو متعلقہ علاقے کے افسران سے کیوں ان کی کارکردگی کے بارے میں سوال نہیں کیا جاتا۔ اگر کہیں کوڑے کرکٹ اور مٹی کے ڈھیر ہیں تو کیوں متعلقہ علاقے کے افسران سے نہیں پوچھا جاتا۔؟ یوں متعلقہ اداروں پر بھی نگرانی کا کڑا نظام ہونا چاہیے تا کہ کوئی بھی اپنی ذمہ داری سے روگردانی نہ کر سکے۔

ہمارے معاشرے کا مزاج ایسا بن چکا ہے گھر سے کچرا نکال کر گلی میں پھینک دیا جاتا ہے ایک طرف تو نالیاں کھلی ہیں مین ہول کھلے ہوئے اوپر سے اس طرح کوڑا بے تربیتی سے پھینکنے کے نتیجے میں نالیاں اور گٹر بند ہونا شروع ہو جاتے ہیں لہذا یہ صورتحال مزید ابتر ہو جاتی ہے یہی ابتری کی صورتحال سینکڑوں بچو ں اور بالغوں کو ہسپتال میں پہنچا رہی ہے ہم نے اپنے اردگرد خود ہی بیماریوں کے ذرائع اکٹھے کر رکھے ہیں۔یقینا انسانی معاشرے میں ماحول اور گھر کی صفائی صحت مند رہنے کے لیے انتہائی ضروری ہے قوموں کی تہذیب اور شائستگی کو پرکھنے کا یہ معیار ہے کہ وہ قوم کس قدر صفائی پسند ہے۔ کیونکہ صحت مند ماحول صحت مند جسم پیدا کرتا ہے اور صحت مندجسم صحت مند دماغ پیدا کرتا ہے۔ گندگی اور تعفن زدہ ماحول میں پرورش پانے والی نسلیں کبھی بھی صحت مند نہیں رہ سکتیں۔ لہذا یہ معاشرے کے ہر فرد اور ادارے کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ اس پہلو کی نزاکت کو سمجھیں اور ماحول کو صاف رکھنے کے لیے انفرادی سطح پر اور ادارہ جاتی سطح پر ہنگامی بنیادوں یہ بہترین منصوبہ بندی کی جائے اور اس پر عمل درآمد کر کے اپنا شمار تہذیب یافتہ اقوام میں کرایا جائے۔


یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

زیادہ پڑھی جانے والی خبریں

گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران

نیوز ہزارہ

error: Content is protected !!