انگریزدور میں ایبٹ آباد شہر کو درختوں سے بھردیاگیا۔ لیکن اب الٹی گنگابہہ رہی ہے۔

ایبٹ آباد(وائس آف ہزارہ)شہر کے درجہ حرارت کو متوازن رکھنے اور اس کی آب و ہوا کو صحت کے لئے مفید رکھنے کے لئے انگریز دور میں شہر کو درختوں سے بھر دیا گیا تھا۔۔ شملہ و سربن پہاڑ کے جنگلات بھی انگریز نے لگائے اور بعد میں گورنر ہاؤس کے ارد گرد اور ہزارہ کے دیگر مقامات پر چیڑھ کے جنگل بھی بین الاقوامی اداروں کی امداد سے لگائے گئے تا کہ مٹی کے بہہ جانے کو روک کر تربیلا ڈیم کی زندگی بڑھائی جا سکے۔۔ اس وقت ایبٹ آباد کے ارد گرد کے جنگلات شدید آگ کی لپیٹ میں ہیں۔ یہ آگ موسم کو گرم کرنے، آلودگی پھیلانے، قیمتی درختوں کے جل جانے اور وائلڈ لائف، پرندوں و حشرات الارض کے لئے تباہ کن ثابت ہوتی ھے۔ قریبی دیہات کے لوگ اکثر جان بوجھ کر آگ لگاتے ہیں کہ وہ ساون میں اچھا گھاس حاصل کر سکیں۔
جنگل کو آگ لگانا قانونا جرم ھے۔محکمہ جنگلات کو اس موسم میں Pine Needlesپائن نیڈلز یعنی چیڑھ کے چلوتروں کو صاف کرنا ہوتا ھے۔ دوسرا جنگلات میں زمین پر Trenchesیعنی کھالے یا خندقیں کھودی جاتی ہیں تا کہ آگ آگے نا پھیل سکے۔۔ آگ لگ جانے کی صورت میں آگ کو بجھانا بھی محکمہ جنگلات کی ذمہ داری ھے۔ محکمہ جنگلات کے افسران دیر سے دفتر آتے ہیں۔ پھر گپ شپ میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ اور پھر سرکاری گاڑیوں میں ذاتی کاموں کے لئے جیسے ذاتی بنگلوں کی تعمیر یا افسران بالا یا منسٹرز کے لئے قیمتی فرنیچر کی تیاری وغیرہ کے لئے نکل جاتے ہیں۔

اور لاگ بکس میں بالڈھیر یا دوسری نرسریوں کا دورہ لکھا جاتا ھے۔ اب نرسری میں ایسی کون سی راکٹ سائنس کاروائی ہو رہی ہوتی ھے جس کا دورہ عوام کو انتہائی مہنگا پڑنے والا ایک اعلی تعلیم یافتہ فارسٹ افسر روزانہ بنیادوں پر کرے۔ شملہ پہاڑی، سربن پہاڑ اور ایبٹ آباد شہر کے اندر مزید درخت لگانے اور پہلے سے موجود درختوں اور شاملاتوں اور قدرتی نکاسی آب کے نالوں کی حفاظت کی ذمہ داری ڈی ایف او گلیز DFO Galies پر عائد ہوتی ہی۔ مگر یہاں تو محکمہ جنگلات کا وجود کہیں نظر ہی نہیں آتا۔

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

زیادہ پڑھی جانے والی خبریں

گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران

نیوز ہزارہ

error: Content is protected !!