شہداء ہزارہ کی برسی:صوبہ ہزارہ کا مطالبہ پریس کانفرنسوں تک محدود ہوگیا۔نہ کوئی جلسہ۔ نہ کوئی دعائیہ تقریب۔

ایبٹ آباد(وائس آف ہزارہ)شہداء ہزارہ کی برسی:صوبہ ہزارہ کا مطالبہ پریس کانفرنسوں تک محدود ہوگیا۔نہ کوئی جلسہ۔ نہ کوئی دعائیہ تقریب۔ عوامی نیشنل پارٹی نے اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے آج سے گیارہ سال قبل شمال مغربی سرحدی صوبہ کا نام تبدیل کرکے خیبرپختونخواہ رکھ دیا۔ ہزارہ کے لوگ جوکہ قیام پاکستان سے لیکر آج تک اٹک پار کے امتیازی سلوک کی وجہ سے خاموش احتجاج کرتے چلے آرہے تھے۔ تاہم صوبے کے نام کی تبدیلی کیساتھ ہی، سالوں سے ہزارہ کے لوگوں کے اندر امتیازی سلوک اور محرومیوں کا پکنے والا، لاوا، ایک دھماکے سے پھٹ گیا اور لوگ سڑکوں پر احتجاج کرنے نکل آئے۔ آج سے گیارہ سال قبل بارہ اپریل 2010ء کو ایبٹ آباد میں احتجاج کرنے والے نہتے لوگوں پر گولیاں چلائی گئیں اور ہزارہ کے سات لوگوں شہید جبکہ سینکڑوں نوجوانوں کوزخمی کیاگیا۔

اس قتل عام پرہزارہ کے لوگوں میں مزید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ ایسے میں بابا حیدرزمان سامنے آئے اور لوگوں نے باباحیدرزمان کی شخصیت کو دیکھتے ہوئے ان کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ بابا حیدرزمان مرتے دم تک صوبہ ہزارہ کیلئے جدوجہد کرتے رہے۔ باباحیدرزمان کی زندگی میں ہر سال شہداء ہزارہ کی برسی منائی جاتی رہی۔ لیکن باباحیدرزمان کی وفات کے بعد تحریک صوبہ ہزارہ سمیت دیگر جماعتوں کے لوگ آج گیارہ سال بعد ایک جلسہ بھی نہیں کرسکے اور صوبہ ہزارہ کا مطالبہ پریس کانفرنسوں تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔

بڑی بڑی باتیں کرنے والے چند افراد کو بھی جمع نہیں کرسکے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھاکہ شہداء ہزارہ کی برسی کے موقع پر پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد کے سامنے دھرنا دیاجاتا اورحکومتی ایوانوں میں صوبہ ہزارہ کی آواز دوبارہ پہنچائی جاتی۔ لیکن افسوس کہ ایسا نہ کیاجاسکا۔

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

زیادہ پڑھی جانے والی خبریں

گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران

نیوز ہزارہ

error: Content is protected !!