عبیرہ کی کہانی

گم نام مصنف۔

کہنے کو تو زندگی اچھی گزر رہی تھی جتنا شکر ادا کیا جائے کم تھا لیکن خوشیاں تو خوش قسمت لوگوں کا ہی مقدر ہوتی ہیں، یہ بات وہ اپنی پھپھو سے کہہ رہی تھی پھر طعنوں کی برسات تم تو صدا کی ناشکری ہو،کیا تکلیف ہے تمہیں اتنا پیار کیا پڑھایا لکھایا تمہاری ہر ضرورت پوری کی،کہنے کو تو ایک خوشحال گھرانہ جس میں صرف تین بھائی اور ماں، ابو تو پچپن میں ہی انتقال کر گئے تھے، زندگی جیسے جیسے گزر رہی تھی اورکچھ عرصے بعد ماں بھی روٹھ کر اس جہاں سے کوچ کر گئی تھی،پھر ایک بھائی بھی اسی صدمے سے مر گیا،پیچھے دو بھائی بڑی مفلسی سے غربت کی زندگی گزار کر بڑے ہوئے تھے۔ان بھائیوں کے دل میں عورت کے لئے بڑی عزت تھی (گھر میں جو نہ تھی)۔پھر یکے بعد دیگرے دونوں بھائیوں کی شادی ہو گئی تھی، پھر تو گھرمیں بیٹے بیٹیوں کی لائن،غربت ختم ہونے کا نام نہ لے رہی تھی پر یہ خوشیاں تھوڑے یہی دنوں کی تھیں پر بڑے بھائی جان کے گھر قیامت کا سماں خوشیاں اور اولاد کا دکھ دیکھے بغیر ہی اس دنیا سے چلے گئے۔

ان کی آٹھ بیٹیاں چھ عدد بیٹے،دو بیٹیاں تو ۲سال کی ہوتے ہی چلی گئی اور باقی تین بھی جوانی میں ہی ایک کنواری اور دو شادی شدہ جوان ہی چلی گئی پرساتھ ہی سب کی شادیوں کا سلسلہ بھی جاری تھا کسی کے جانے سے زندگی رک تو نہیں جاتی نا، انہی دنوں بڑے بھائی کے بڑے بیٹے کی شادی ہوئی (جو سب کے اخراجات ا ٹھاتاتھا)۔گھر کے جتنے بھی ہوں باہر کا ایک بھی برداشت سے باہر ہوتا ہے۔شادی ہوتے ہی گھر میں لڑائی جھگڑے شروع ہو گئے کیونکہ اس نے کسی غیر مرد کی تعریف جو کر دی تھی،پھر کیا تھا لڑائی طول پکڑ گئی۔ایسے میں وہ ایک بیٹی یعنی (عبیرہ)کی ماں بھی بن گئی تھی۔ ان کی نہ بنتی تھی نہ بنی وہ طلاق لے کر اپنے ابا کے گھر رخصت۔ ابا نے بھی کہا کہ اس بیٹی کوساتھ نہ لاناتو وہ بھی اسے باپ کے گھر ہی گند کہہ کے پھینک کر چلی گئی۔ بیچاری عبیرہ کا کیا قصور اس کو کس بات کی سزا ملی پر بھرا گھر تھا آنیوں نے بڑے لاڈ اور پیار سے بیٹی سمجھ کر پالاتھا۔ پر جلد ہی ان سب کی شادی ہو گئی اور گھر میں پرانی لڑائیاں آ گئی تھی۔ایک چاچی تو سب آنٹیاں تھیں۔ تب آئی اور انہیں عبیرہ سے کوئی مسئلہ نہ تھاپردوسریاں کہاں سنبھالتی ہیں کیانکہ اچھے وقت کے بعد برا وقت ضرور آتا ہے۔

سب چاچو اپنی اپنی اولاد کے ساتھ اپنے گھر میں مصروف اور باپ بھی دوسری شادی کے بعد اپنے گھر میں اپنے دوسرے بچوں کے ساتھ۔ اس بیچاری عبیرہ نے مانگ مانگ کر کہیں سے میٹرک اور ایف اے کیا پھر اس کے بعد آگے پڑھ رہی تھی پر طعنے وقت کے ساتھ ساتھ ملتے تھے بھول کر کوئی غلطی جو ہو جائے طعنوں کی برسات(گندی ماں کی گندی اولاد، طلاق یافتہ عورت کی بیٹی)۔ سوچا پڑھ لکھ کر کچھ بن جاؤں گی پر غربت نے ابھی بھی ہاتھ تھاما ہوا تھا اس کا، پیسے جو نہ تھے آگے کیسے پڑتی بیچاری۔ ایسے بچوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے نا۔ پر وہ بیچاری پھر بھی ہر وقت مسکرانے والی،اپنے گھر والوں کی عزت کرنے والی او ر اچھے لوگ اسے بہت پسندتھے جیسے اس سے ہمدردی کرنے والے لوگ،اس کی دوستیں اور اس کی ٹیچرز تھیں۔ اس کی بہت خواہشیں تھیں جیسے ڈاکٹر بننے کی خواہش، کچھ کرنے کی خواہش۔ پر اس کی عمر کے ساتھ ہی ساری خواہشیں دم توڑ گئی۔ زندگی میں ہر انسان کو کوئی نہ کوئی اچھا لگتا ہے تو اسے بھی خوبصورت لوگ اچھے لگتے تھے اور کسی سے محبت بھی تھی۔ زندگی میں لڑکیوں ک جوان ہوتے ہی رشتوں کی لائن لگ جاتی ہے پر اس کے ساتھ ایسا کچھ نہ ہوا تھا کیونکہ ماں باپ ہی نہ پوچھتے ہوں تو اور لوگ کیسے پوچھے گئے۔ اگر کوئی آتا بھی تھا تو دور گاؤں سے کیونکہ اس طرح تو اپنے ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔

اپنے پیارے پیارے بیٹوں کے لیے کون غریب لڑکی لائے گاکیونکہ نہ ہی جہیز کی کوئی امید تھی اور ماں کا ریکارڈ بھی اتنا اچھا نہ تھا۔لوگ تو اسے اچھا کہتے مگر عبیرہ کے دودھیال والے اس کی بہت برائیاں کرتے تھے۔عبیرہ کہنے کو تو اتنی سفید رنگت کی مالک نہ تھی پر سیرت اور نقش و نگار بہت خوبصورت تھے۔سب سے پیار کرنے والی اور زندہ دل اور کبھی کسی لڑکے نے چھیڑنے کی جرات نہ کی تھی پر محبت جس سے ہو،ہو کر ہی رہتی ہے اور نہ ہی کبھی دل سے نکلتی ہے۔ محبت تو عبیرہ کو بھی ہوئی پر اس نے کبھی کسی سے کچھ نہ کہا حتیٰ کہ اس کی منگنی دور پرے کے رشتے داروں میں ہو گئی تھی۔عبیرہ نے اپنی محبت کو دل میں چھپا کے ہی سمجھوتا کر لیا تھا۔اتنے طعنے اور ماں باپ کے بغیر زندگی گزار کر کون اپنے متعلق کسی کو کچھ بتا سکتا ہے۔ اسے کبھی کبھی لگتا کہ اس کا منگیتر اسے پسند کرتا ہے پر عبیرہ نے کبھی اس سے بات نہ کی تھی اور پسند بھی کیوں نہ کرتا،عبیرہ تھی ہی اتنی اچھی اور تو اور آواز بھی بہت سریلی تھی۔ اس کے لمبے سلکی بال، بڑی بڑی آنکھیں جب وہ تیار ہوتی تو بہت حسین لگتی تھی۔اسے سب بہت پسند کرتے تھے اور اس کی بھرپور تعریف کرتے تھے۔

پھر منگنی کو ایک سال گزرنے کے بعد سب کو اس کی شادی کی فکر ستانے لگی کہ ہم سے نہ کچھ مانگ لیا جائے کوئی کہتا کسی امیر سے مانگ لیتے ہیں اور کوئی کیا تو کیا کہتا۔اسے لاکھ طعنے ملتے مگر بولتی تو کیا تھا رہنے کے لیے،کھانے کے لیے روٹی۔ شادی کے نام پہ اسے خوشی ہونی چاہیئے تھی پر اسے شادی کا سنتے ہی دکھ ہونے لگتا،ایک تو اس کا سسرال اتنا خاص بھی نہ تھا لڑکا پڑھا لکھا نہ تھا۔پر وہ تھی تو راضی صرف اپنے گھر والوں کی وجہ سے کہ جنہوں نے اسے پالا۔ جب بھی عبیرہ شادی کا سن کے خوش ہوتی بھی تو ماں باپ کا اتنابڑا تجربہ جو سامنے تھا۔وہ عبیرہ آج سب سے ہر کسی سے یہ پوچھتی ہے کہ کیا ایسے ہوتے ہیں والدین اپنی اپنی زندگی میں مگن اور خوش۔ وہ اولاد جسے پیدا کر کے پھینک دیا، بڑی تو وہ ہو گئی پر نہ کبھی اس کے کھانے کی فکر نہ بیماری،پڑھائی اور عید کی فکر تھی۔ وہ دونوں زندہ تھے مرے تو نہ تھے۔وہ ماں تو دور چلی گئی گند کہہ کے،باپ تو پاس ہو کر بھی پاس نہیں ہے۔ سب سے بڑی بات جو اسے دکھ دیتی وہ یہ کہ دو وقت کی روٹی اور رہنے کے لیے چھت ہی سب کچھ تھاجو اس کے پاس تھا پھر اسے کیا تکلیف پر زندگی میں یہی سب کچھ ہوتا ہے کیا ہمدردی اور پیار کی کوئی قدر نہیں اس دنیا کے آگے۔

عبیرہ سب والدین سے کہتی ہے(جن کے لیے بیٹیوں کی کوئی قدر نہیں)خدارا اگر پال نہیں سکتے تو مت پیدا کیجئے دنیا جہاں کی باتیں سننے کے لیے، ہر انسان کے سینے میں دل ہوتا ہے پتھر نہیں۔


یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

زیادہ پڑھی جانے والی خبریں

گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران

نیوز ہزارہ

error: Content is protected !!