ایبٹ آباد(وائس آف ہزارہ)جامعہ سیدنا ابوبکرؓ سلطان پور حویلیاں میں عظیم الشان فقید المثال 15ویں سالانہ دستار فضیلت کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں 27حفاظ کرام کی دستار بندی کے علاوہ 15طلباء کو میڈل سے نوازا گیا اور بہترین کارکردگی پر 4علماء کو اعزازی شیلڈ سے بھی دی گئیں۔ تقریب کے مہمان خصوصی حضرت مولانا سید محمود الحسن شاہ مسعودی صاحب تھے۔ دیگراکابریں میں حضرت مولانا سلیم اعجاز صاحب، حضرت مولانا قاری نعیم الرحمن ظہیر صاحب ہری پور، ثناء خواں مصطفی محترم اعجاز حسین شاہ کاظمی صاحب،حضرت مولانا حبیب الرحمن،حضرت مولانا عبدالوحید صاحب مہتمم جامعہ امام ابوحنیفہ مسلم آباد، مولانا قاری عبدالباسط صاحب اورمہتمم جامعہ ہذا حضرت مولانا پروفیسر مفتی آصف محمود صاحب سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کثیر التعداد شریک تھے۔
کانفرنس خطاب کرتے ہوئے مہمان خصوصی حضرت مولانا سید محمود الحسن شاہ مسعودی صاحب نے کہاکہ جامعہ سیدنا ابوبکرؓ سلطان پور حویلیاں بامقصد اور معیاری تعلیم کا ادارہ ہے۔ اللہ سے ہونے کا یقین اور مخلوق سے اللہ کے ارادے کے بغیر کچھ بھی نہ ہونے کا یقین ہو اوراللہ کے ساتھ اپنا تعلقات درست کرنے سے ہی دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی کامیابی ہے اور اس کے بغیر دونوں جہانوں میں ناکامی ہے۔ مسلمان جب تک قرآن و سنت کے مطابق شریعت پر نہیں آتے کبھی عزت نہیں پاسکتے۔ایمان تب نصیب ہوتا ہے جب بندہ یقین کامل کے ساتھ زبان سے اقرار کرے اور دل سے تصدیق کرے۔مگر المیہ یہ ہے کہ ہم لوگ یقین کے معنی و مفہوم، یقین کی ضرورت و اہمیت اور اس کی برکات سے کلیتاً محروم ہوگئے ہیں۔ درحقیقت زبان سے اقرار کرنا دل کی تصدیق کے اظہار کے لیے ہوتا ہے اور دل تصدیق تب کرتا ہے جب بندہ یقین کی اعلیٰ بلندیوں پر فائز ہو۔ گویا زندگی کی ابتداء ایمان بالغیب سے ہوتی ہے اور یقین ہی ایمان بالغیب کو پختہ کرتا ہے جس کے نتیجے میں ہدایت کے راستے کھلتے ہیں۔ وہ لوگ جو تقویٰ و پرہیزگاری کے ذریعے ہدایت حاصل کرتے ہیں قرآن نے انہیں ھدی للمتقین کی صورت میں بیان کیا ہے۔وہ لوگ جنہیں تقویٰ اختیار کرنے، غیب پر ایمان لانے، نماز ادا کرنے، اللہ کی راہ میں خرچ کرنے اور آخرت پر ایمان لانے کی بدولت اللہ تعالیٰ ایسی ہدایت عطا فرماتا ہے کہ وہ خود تو ہدایت پر قائم رہتے ہی ہیں مگر اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ دوسرے لوگوں کی ہدایت کا سبب بھی بنتے ہیں۔ وہ دوسروں میں ہدایت تقسیم کرنے والے بن جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کے حاضر و ناظر ہونے کا احساس اگر انسان کے ذہن و دماغ پر ہمیشہ طاری رہے تو ناممکن ہے کہ وہ اپنی فکر و عمل میں کوئی غلط روش اختیار کرے۔اگر یہ تصور اور عقیدہ مضبوط و مستحکم نہ ہو تو انسان وہ کام کرتا ہے جس سے حیوانیت اور بہیمیت کو بھی شرم آتی ہے۔ لہذا انسانی زندگی کو قرآنی سانچے میں ڈھالنے اور قرآنی طرزِ زندگی پر مشتمل انسانی معاشرے کی تشکیل کے لیے ضروری ہے کہ عقیدہ توحید کے انسانی زندگی پر اثرات کو اجاگر کیا جائے۔ آج کا دانشور بولتا زیادہ اور سوچتا کم ہے، لکھتا زیادہ اور پڑھتا کم ہے اور سوسائٹی پر اس کے اثرات بھی ویسے ہی ہیں۔ تعلیم مقدار میں بڑھ گئی مگر معیار زوال پذیر ہے۔ ایسی تعلیم کی ضرورت ہے جو قوم میں غیرت و حمیت کو پروان چڑھائے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم کا مقصد ڈگریوں کے انبار لگانا نہیں بلکہ انسانیت کی خدمت اور وطن کی سربلندی کیلئے اپنا حصہ ڈالنا ہے۔ آج سے 500 سال پہلے اساتذہ اور تعلیمی ادارے آج کی نسبت بہت کم تھے مگر آج ہمیں ڈھونڈنے سے بھی غزالی، بوعلی سینا، رازی اور مولانا روم نہیں ملتے کیونکہ آج درس و تدریس کا عمل دنیاوی مراعات سے منسلک ہو چکا ہے، جبکہ پانچ سو سال قبل اور اس سے پہلے والے مسلمان انسانیت کی خدمت کے جذبے سے علم حاصل کرتے اور تقسیم کرتے تھے۔ آج بھی اسی اخلاص اور تعلیم کے مصطفوی مقصد کی طرف لوٹنا ہو گا۔
تقریب کے آخر میں مہمان خصوصی نے اعلیٰ کارکردگی پیش کرنے والے 4علماء کرام جن میں حضرت مولانا رفیق معاویہ، حضرت مولانا صدام حسین، حضرت مولانا مدثر مقبول، حضرت مولانا انجم سہیل کو اعزاز ی شیلڈ سے نوازا گیا اور نمایاں کارکردگی حاصل کرنے والے 15طلباء کو میڈلز دیئے گئے اور 26حفاظ کرام جن میں حافظ محمدابراہیم،حافظ انعام اللہ، حافظ عمر خان،حافظ سمیع اللہ،حافظ محمد فیصل،حافظ مزمل اعوان،حافظ محب علی،حافظ حسن،حافظ عبداللہ،حافظ جبیب اللہ،حافظ بلال خان،حافظ محب اللہ،حافظ جنید، غلمان،حافظ اکمل،حافظ شیخ احمد،حافظ محبوب اللہ،حافظ ابوبکر،حافظ اسامہ بنارس،حافظ شعیب، حافظ حماد،حافظ محمد عزیر،حافظ فیض اللہ،حافظ معاد اللہ، حافظ محمد سعد،حافظ اویس اور حافظ سلمان خان کو دستار پہنائی گئی۔ طلبہ اور ان کے والدین نے معیاری تعلیم کی سہولتیں فراہم کرنے پرمہتمم جامعہ ہذا حضرت مولانا پروفیسر مفتی آصف محمود اور اساتذہ کو خراج تحسین پیش کیا۔