پاکستانی قوم کے کرایہ دار بچے۔رمیض رومی کی خصوصی تحریر۔

تحریر۔۔۔۔رمیض رومی۔

بابا او بابا وہ عید آنے والی ہے نہ جب ہم گوشت کھائیں گے ہمیں بھی گوشت ملے گا نا بابا ہاں کیوں نہیں ملے گا نا لیکن بابا پچھلی عید پہ تو ہمیں کسی نے بھی گوشت نہیں دیا تھا اب تو سال ہو گیا گوشت دیکھے ہوئے بھی
بیٹی ہم بھوکے تو نہیں رہے نا ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئیے عید ہم غریبوں کے لئے ہی تو ہوتی ہے۔
ساتھ والے ڈاکٹر صاحب بھی بیل لائے ہیں اور ماسٹر صاحب نے بھی بکرا لیا ہے اس بار ہم گوشت ضرور کھائیں گے۔
اگلے دن باپ عید کی نماز ادا کر کے آیا شازیہ نے پر سوال کیا آج ہم گاشت کھائیں گے نا بابا ہاں بیٹا؟
پاس کی مسجد میں آج مولوی صاحب خطبے میں کہہ رہے تھے کے عید پر غریبوں مسکینوں کا ضرور خیال کریں ان کے بہت حقوق ہوتے ہی آس پاس سب کا خیال رکھیں غریبوں کا حق ہے انہیں گوشت ضرور دیں
ایک گھنٹہ گزر گیا شازیہ پھر بولی ابھی تک گوشت نہیں آیا بابا بڑی بہن رافعہ نے ڈانٹہ بابا کو تنگ نہ کرو۔
دن گزرتا گیا بیگم بولیں سنیے جی میں نے تو پیاز اور ٹماٹر بھی کاٹ کے رکھے ہوئے ہیں ابھی تک گوشت نہیں آیا کہیں وہ ہمیں دینا تو نہیں بھول گئے آپ جا کر دیکھیں مانگ لیں
شازیہ کی ماں تم تو جانتی ہو آج تک کبھی کسی سے کچھ مانگا نہیں دوپہر گزر گئی شام ہوئی شازیہ نے پھر اسرار کیا بابا گوشت نہیں آیا شازیہ کے اسرار پر باپ اٹھا اور ڈاکٹر صاحب کے گھر پہنچ گیا دستک پر ڈاکٹر صاحب نے دروازہ کھولا اور حقارت کی نگاہ سے دیکھا ڈاکٹر صاحب میں آپکا پڑوسی ہوں کیا تھوڑا سا گوشت مل سکتا ہے ڈاکٹر بڑبڑاتے ہوئے پتا نہیں کہاں کہاں سے اٹھ کر چلے آتے ہیں اور دروازے بند شرمندگی سے آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور بوجھل قدموں سے ماسٹر صاحب کے گھر کی طرف چل دئیے دستک دی ماسٹر صاحب نے گھورتے ہوئے دیکھا اور دروازہ بند پھرایک دم کھولا ایک شاپر پکڑایا اور جلدی سے اندر چلے گئے
جیسے گوشت مانگ کر کوئی گناہ کیا ہو۔
گھر جا کر جب کھولا تو ہڈیاں اور چربی بیوی کوئی بات نہیں میں چٹنی بنا لیتی ہوں۔
شازیہ میرے پیٹ میں درد ہے مجھے گوشت نہیں کھانا۔
سننا تھا کے باپ کمرے میں جا کر رویا اور بہت رویا ساتھ دونو ں بیٹیاں اور بیوی بھی روئی اتنے میں سبزی کی ریڑھی والے اکرم کی آواز آئی انور بھائی انور بھائی باہر آنا یہ چھوٹا بھائی گاؤں سے گوشت لایا ہے یہ آپ لوگ بھی کھا لیں پانچ کلو گوشت کا شاپر تھما دیا اکرم کا شکریہ ادا کیا اور بہت ساری دعائیں دی سب خوش ہو گئے کھانا بنا سب نے شکر ادا کیا اور دل سے دعائیں دیں اکرم کو ابھی کھانا کھا کر اٹھے ہی تھے کے آندھی طوفان بجلی چمکی اور بجلی چلی گئی اگلے دن پتہ چلا کے خراب موسم کی وجہ سے شہر کا ٹرانسفارمر جل چکا ہے اور بجلی آنے کا کوئی امکان نہیں۔
تین دن بعد شازیہ باپ کے ساتھ جا رہی تھی انہوں نے دیکھا کے ڈاکٹر صاحب اور ماسٹر صاحب بہت سارا گوشت کوڑے کے ڈھیر پر پھینک رہے تھے جو کے بجلی نہ ہونے کی وجہ سے خراب ہو چکا تھا اور اب کتے منہ مار رہے تھے۔
باپ بیٹی پاس سے یہ سب دیکھتے ہوئے گزر رہے تھے شازیہ بولی بابا کیا قربانی کتوں کے لئے کرتے ہیں ڈاکٹر اور ماسٹر صاحب نے یہ سن کر گردن جھکا لی۔
خدارا سب کو ایک نظر سے دیکھیں سب انسانوں کو اللہ پاک نے بنایا ہے اور روپیہ پیسہ آنی جانی چیز ہے بچیں ان حساس لوگوں کی آہ سے جو عرش پر پہنچ جائے تو تخت سے مٹی میں ملا دیتی ہے شان و شوکت۔۔۔قربانی میں سے پہلا حصہ مستحق۔اور غریب لوگوں کا نکالیں۔انکو دل کھول کر دیں۔۔۔ ان شاء اللہ اجر عظیم عطا ھوگا۔آمین۔

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

زیادہ پڑھی جانے والی خبریں

گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران

نیوز ہزارہ

error: Content is protected !!