ٹی ایم اے، کینٹ بورڈ نے ایبٹ آباد کو ماحولیاتی اعتبار سے تباہ کرکے کنکریٹ میں تبدیل کردیا گیا۔

تحریر ماحول دوست کارکن محمود اسلم ایبٹ آباد۔

ایبٹ آباد جو ماحولیاتی اعتبار سے تباہ ہوا ہے اس سلسلہ میں ایک وائٹ پیپر جلد ہی شائع کیا جائے گا۔۔ ندی نالوں پر قبضے ہوئے۔۔ پہاڑی شاملاتوں کو بغیر ابتدائی ماحولیاتی تجزیہ کروائے اور ٹی ایم اے یا ڈسٹرکٹ کونسل کے قوانین کا احترام کئے۔ شہر کی نچلی آبادیوں کی جانب فضلہ و کوڑا کرکٹ و سیلاب پھینکنے والی کچی آبادیوں میں تبدیل کر دیا گیا۔۔ کینٹ کے ماحولیاتی اعتبار سے حساس گرین بیلٹس، کلب، قدیمی کینٹ ہسپتال، بلوچ میس، شملہ پہاڑی اور لیڈی گارڈن پر خلاف قانون کمرشل سرگرمیوں کی خاطر قبضے کئے گئے۔ پائن ویو روڈ و علامہ اقبال روڈ و کلب روڈ کے درختوں سے بھرے اور سیلاب اور اپنے اندر سمو لینے والے ندی نالوں کو تباہ کر کے وہاں کمرشل پلازے، شادی ہالز اور وی آئی پی ریسٹ ہاوُسز بنائے گئے۔۔
ایبٹ آباد ہل سٹیشن کے محدود انفرا سٹرکچر اور ہمسائیوں کی دھوپ و بریتھنگ سپیس کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت نے صرف اٹھائیس فٹ بلند عمارتوں کی اجازت دے رکھی تھی۔ جبکہ ٹی ایم اے و کینٹ بورڈ کے راشی سٹاف نے آٹھ منزل عمارتوں تک کی اجازت دے کر ساتھ والے ہمسائیوں کی دھوپ، پردے اور سکون کو تباہ کروا دیا۔ اس سلسلہ میں تفصیلی رپورٹس پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا پر مسلسل شائع کی جاتی رہیں۔ شہر کے تھنک ٹینکس، کامسیٹس انوائرمینٹ ڈیپارٹمنٹ، ہزارہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر و آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ، ایبٹ آباد یونیورسٹی کے مائکرو بائیولوجی ڈیپارٹمنٹ، ٹی ایم اے، کینٹ بورڈ، سٹیشن ہیڈ کوارٹر، ضلعی انتظامیہ ڈی سی و کمشنر وغیرہ،بار روم و ڈی بی اے و ہائی کورٹ و سپریم کورٹ کے سینئروکلا، لوئر کورٹس، ہائی کورٹ و سپریم کورٹس اور سیاست دانوں و پریس کلب کے دروازے کھٹکٹائے گئے۔۔ شہر کی انوائرمینٹ کو بچانے کے لئے ہر ایرے غیرے کی منتیں اور ترلے کئے گئے مگر ایک دو نیک فطرت ساتھیوں کے کسی کے کان پر جوں نہ رینگی بلکہ محمود اسلم جیسے والنٹیرز و سماجی کارکنوں کا نہ صرف مذاق اڑایا گیا بلکہ باقی افراد کو بھی اس کی مدد کرنے سے غیبت، جھوٹ اور بہتان تراشی کے ذریعے روکا گیا۔ اور دنیا کا خوبصورت ترین ہل سٹیشن شتر بے مہار لینڈ مافیا نے ہماری آنکھوں کے سامنے تباہ کر دیا۔

شہر کا محدود انفرا سٹکچر اوور برڈنڈ ہو کر تباہ ہو گیا۔ ٹٹی ملا پانی پینے سے ٹائیفائڈ، پیچش و ہیضہ و یرقان کے مریضوں سے ہسپتال بھر گئے۔ غلط پلاننگ کی وجہ سے بازار بد صورت و بھونڈے ہو گئے اور ان میں پیدل چلنا تک دشوار ہو گیا۔ شہر کے باغات تک محدود ہو گئے اور کمرشل سرگرمیوں کی وجہ سے رش اور شور شرابے اور مشینی جھولوں و سرکس میں تبدیل ہو گئے۔ عوام الناس اور ارد گرد کے گاوُں سے آئے مسافروں کے بیٹھنے کے مقامات و گرین بیلٹس و لائبریریز تک پر لینڈ مافیا نے ٹی ایم اے کے انتہائی کرپٹ اور قانون شکن محکمہ کی ملی بھگت سے قبضے کر لئے۔ سارے شہر کی ٹٹی فضلے کو کسی دور کی پاک صاف اور لذیذ ترین مچھلی سے بھری ہوئی ندی دوڑ میں پھینک کر آبی حیات و مچھلی تک کو مار ڈالا گیا اور حویلیاں و ہری پور کی زیریں وادیوں کے باسیوں کو مختلف موذی بیماریوں کا شکار بنا دیا گیا۔ پندرہ لاکھ کی بے ہنگم آبادی کے شہر کا سارا کوڑا کرکٹ لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ و مراعات لینے والے محکمے ٹی ایم اے، واسا و کینٹ بورڈ والے سلہڈ کے مقام پر پھینک کر اور پلاسٹک اور دیگر زہریلے مواد کو آگ لگا کر زہریلا دھواں اور پولوشن پورے ایبٹ آباد میں سلہڈ سے لے کر پی ایم اے تک پھیلا کر سول و فوجی آبادی کو ہر قسم کی سانس کی اور خون کی بیماریوں کا شکار بناتے رہے اور شہری کینسر، ہائی بلڈ پریشر، ذہنی ٹینشن اور دل کے امراض کا شکار بنتے رہے۔

ایبٹ آباد ماحولیاتی اعتبار سے تباہ ہو چکا ہے اور اس کی یہ حالت ایک دن میں نہیں ہوئی اور سربن، شملہ کی شاملاتوں اور سپلائی کے بانڈہ جات پر جاری بے ہنگھم تعمیرات سے دن بدن یہ مزید برباد ہوتا جائے گا اور کاغان کیفے چوک، لنک روڈ، جھگیاں، سپلائی اور بلال ٹاؤن جیسے زیریں علاقوں میں سیلاب کی سطح بلند سے بلند ہوتی جائے گی۔ اور ٹٹی ملا گندہ سیلاب لوگوں کے گھروں اور سرکاری دفاتر، سکولوں و ہسپتالوں میں گھستا رہے گا۔ اس ساری تباہی میں ایبٹ آباد کے ٹھیکیدار سیاسیوں نے سب سے زیادہ گھناوُنا، گندہ و ملک دشمن کردار ادا کیا ہے۔
دیکھے مجھے جو کوئی دیدہ عبرت نگاہ ہو۔

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

زیادہ پڑھی جانے والی خبریں

گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران

نیوز ہزارہ

error: Content is protected !!