سرمیجرجیمز ایبٹ کے دفتر کی مسماری: ڈی جی محکمہ آثار قدیمہ نے سی اوکینٹ کیخلاف مقدمہ درج کرنے کا مراسلہ جاری کردیا۔

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر ایبٹ آباد میں کنٹونمنٹ بورڈ نے اپنے ہی بانی اور ایبٹ آباد شہر کی بنیاد رکھنے والے سر میجر جیمز ایبٹ کے پرانے اور تاریخی دفتر کو مسمار کر دیا ہے۔

صوبہ خیبر پختونخواہ کے محکمہ آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالصمد کے مطابق ایبٹ آباد کے بانی میجر جیمز ایبٹ کے دفتر کی مسماری کا نوٹس لے لیا گیا ہے اور محکمہ آثار قدیمہ نے تاریخی عمارت کی مسماری پر مقدمہ درج کرنے کے لیے ایبٹ آباد پولیس اور انتطامیہ کو خط بھی لکھا ہے۔

ڈاکٹر عبدالصمد کے مطابق محکمہ آثار قدیمہ نے کنٹونمٹ بورڈ ایبٹ آباد کو متعدد خطوط لکھ کر میجر جیمز ایبٹ کے مسمار کیے جانے والے دفتر اور دیگر تاریخی عمارتوں کے تحفظ کی طرف توجہ دلائی تھی۔

کنٹونمٹ بورڈ کو آگاہ کیا گیا تھا کہ ایبٹ آباد شہر میں ڈاکخانہ کے قریب پرانے کنٹونمنٹ بورڈ کی عمارت اور دیگر عمارتیں تاریخی ہیں۔ ان عمارتوں کو قانونی تحفظ حاصل ہے اور ان کو کسی بھی صورت میں مسمار نہیں کیا جاسکتا بلکہ قانونی طور پر ان کا تحفظ کنٹونمنٹ بورڈ سمیت دیگر تمام سرکاری اداروں کی ذمہ داری ہے۔

کنٹونمنٹ بورڈ ایبٹ آباد سے اس بارے میں رابطہ قائم کر کے مؤقف حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تاہم کنٹونمنٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹو نے کوئی بھی مؤقف دینے سے انکار کر دیا۔

سر میجر جمیز ایبٹ کون تھے؟

دنیا بھر میں اسامہ بن لادن کی وجہ سے شہرت پانے والا ایبٹ آباد تاریخی طور پر کوئی زیادہ پرانا شہر نہیں۔ اس شہر کی بنیاد انگریز دور میں سکھوں کے ساتھ دوسری جنگ کے بعد ہزارہ کے پہلے ڈپٹی کمشنر سر جیمز ایبٹ نے رکھی تھی۔

سر جیمز ایبٹ کو اس زمانے کے ضلع اور آج کے ہزارہ میں پہلا ڈپٹی کمشنر تعینات کیا گیا تھا۔

سر جیمز ایبٹ کو آغاز میں ہری پور میں تعینات کیا گیا تھا مگر بعد میں سر جیمز ایبٹ نے ایبٹ آباد کی بنیاد رکھ کر پہلی چھاؤنی اور کنٹونمنٹ کی بنیاد رکھی تھی۔

محقق صاحبزادہ جواد الفیضی کے مطابق سر جیمز ایبٹ بنیادی طور پر فوجی اور جنگجو تھے۔ انھوں نے اس زمانے میں اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق مستقبل کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے اس علاقے میں فوجی چھاؤنی کی بنیاد رکھی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بیسویں صدی کے آغاز ہی میں ایبٹ آباد کو اہم فوجی مقام حاصل ہو گیا تھا۔

یہاں پر بعد میں انگریز کی فوج کے اہم ڈویثرن، سپلائی لائن اور کئی رجمنٹ قائم ہوئے تھے۔

صاحبزادہ جواد الفیضی کا کہنا تھا کہ سرجیمز ایبٹ کو ہزارہ میں انگریز حکومت کی عملداری قائم کرنے کے لیے بھجا گیا تھا۔ انھوں نے یہ کام انتہائی حکمت عملی سے کیا تھا۔ وہ عموماً بھیس بدل کر عام لوگوں میں گھل مل جاتے تھے۔ یہاں تک کے ایبٹ آباد شہر سے تیس کلو میٹر دور شیران کے علاقے میں بھی بھیس بدل کر قیام پذیر رہے تھے۔

تاریخ کے اندر وہ انتہائی دلچسپ کردار تھے۔ کئی تاریخی حوالوں میں کہا گیا ہے کہ انھوں نے لوگوں کے حالات کو سمجھنے کے لیے بھیس بدل کر امام مسجد کا روپ بھی دھارا تھا۔ ہزارہ میں ان کی شہرت ایک رحمدل اور انصاف پسند ڈپٹی کمشنر کی تھی۔

جواد الفیضی کا کہنا تھا کہ سر جیمز ایبٹ سنہ 1853 میں ہزارہ سے تبادلے پر بہت غمزدہ ہو گئے تھے۔ اس موقع پر انھوں نے ایبٹ آباد کے نام ایک مشہور زمانہ نظم لکھی تھی۔ جس کو پڑھ کر ان کی اس شہر سے محبت کا اندازہ ہوتا ہے۔

سر جیمز ایبٹ کو ہزارہ میں امن وامان قائم کرنے کے علاوہ کئی فوجی مہمات میں حصہ لینے پر کئی ایواڈوں سے بھی نوازا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

زیادہ پڑھی جانے والی خبریں

گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران

نیوز ہزارہ

error: Content is protected !!