کیلاش قبیلے کی معمر خاتون شیر کانی 92 سال کی عمر میں انتقال کرگئی۔ صدقہ کیلئے چالیس بکرے، ایک بیل اور دوبچھڑے ذبح۔

چترال(گل حماد فاروقی)کیلاش قبیلے کے معروف شحصیت، سماجی کارکن، ہوٹل مالک عبد الخالق کیلاش کی والدہ شیرکانی 92  سال کی عمر میں فوت ہوئی۔آنجہانی کو کیلاش ثقافت کے مطابق پورے مذہبی رسومات ادا کرنے کے بعد دوسرے دن سپرد خاک کی گئی۔آنجہانی کی جسد خاکی کو کیلاش قبیلے کے مذہبی عبادت گاہ جستکان میں رکھی گئی تھی۔اس کی سرہانے تعظیم کے طور پر سو، پانچ سو اور ہزار روپے کے نوٹ بھی رکھے گئے تھے۔کیلاش قبیلے کے مذہبی رہنماء جنہیں مقامی زبان میں قاضی کہلاتے ہیں وہ باری باری آکر میت کے سرہانے یا پیروں کی جانب کھڑے ہوکر ان کی تعریف کرتے ہیں اور ان کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

کیلاش قبیلے کے رسم کے مطابق مرد کی مو ت پر تین دن تک مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں جن میں ڈھولک بجاکر خواتین میت کی گیت گاتی ہیں، محصوص رقص پیش کرتی ہیں اور مرد بھی نرالی انداز سے ڈھولک کی تھاپ پر روایتی رقص پیش کرتے ہیں اور اس کی دفن کرنے کے وقت ہوائی فائرنگ بھی کرتے ہیں۔ جبکہ خاتون کے موت پر ایک سے دو دن تک رسم ادا کرتے ہیں۔ مگر اس کی دفنانے کی وقت ہوائی فایرنگ نہیں کی جاتی اور اکثر ڈھولک بھی نہیں بجا یا جاتا۔

آنجہانی شیرکانی کے موت کا رسم دون دن تک منایا گیا جس میں چالیس بکرے، ایک بیل اور دو بچھڑے بھی ذبح کئے گئے۔ کیلاش لوگ ان جانوروں کو مسلمانوں سے ذبح کراتے ہیں تاکہ میت کیلئے کئے جانے والے صدقے کو وادی میں رہنے والے کیلاش اور مسلمان دونوں کھا سکے۔ شیر کانی کی موت پر وادی بریر اور وادی رمبور سے بھی کثیر تعداد میں کیلاش قبیلے کے لوگ آئے تھے۔ رات کے وقت ان کو پنیر،لسی اور چپاتی سے تواضع کرایا گیا جبکہ دن کے وقت جب میت کو دفنایا گیا تو مہمانوں کو کھانا دیا گیا جس میں گوشت، دیسی گھی، روٹی اور روایتی طعام جوش بھی شامل تھا۔ جوش ایک حاص طعام ہے جو گوشت کے شوربے میں آٹے کو خوب پکاکر تیار کیا جاتا ہے۔ اس میت میں تقریباً تین کنستر دیسی گھی اور پنیر بھی مہمانوں کو پیش کیا گیا کھانے کے بعد حاص طور پر مہمانوں کو انگور سے بنی ہوئی شراب جسے دروچ اوغ کہا جاتا ہے وہ بھی پیش کیا گیا۔

میت کے دن سے تعزیت کیلئے آنے والے مہمانوں کو چائے کے ساتھ بسکٹ اور بیکر بھی پیش کیا جاتا رہا۔جس وقت میت کو قبرستان لے جایا گیا تو اس وقت جستکان میں موجود تمام کیلاش خواتین باہر جاکر بہتے ندی کی پانی سے ہاتھ دھوئے۔ اور مردحضرات نے جب آنجہانی شیرکانی کو دفنادیا جس کے ساتھ اس کی استعمال کی چیزیں بھی قبر میں رکھی گئی تو جس چارپائی میں اس کی لاش قبرستان تک لے جائے گئی تھی اس چارپائی کو بھی اس کے قبر ک اوپر الٹا رکھ کر روانہ ہوئے۔ مردوں نے بھی میت دفنانے کے بعد اسی نہر سے ہاتھ دھوئے اور پھر کھانے میں شریک ہوئے۔

ہمارے نمائندے نے حصوصی طور پر دو دنوں سے ان تمام رسومات کی کوریج کیلئے وادی کیلاش جاکر متعلقہ لوگوں سے بات چیت بھی کرلی۔ لوک رحمت کیلاش کا کہنا ہے کہ ہم اس عقیدے سے یہ جانور ذبح کرتے ہیں تاکہ میت کے لئے صدقہ ہو اور اس میں پرندوں کو بھی کھلایا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چونکہ جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو سب لوگ اس کی پیدائش کا خوشی مناتے ہیں مگر کیلاش لوگ ان کو موت کے وقت بھی انہیں خوشی خوشی رحصت کرتا ہے اور اس وقت بھی ڈھولک بجاکر محصوص رقص پیش کرتے ہوئے گیت گاتی ہیں۔

عبد الخالق کیلاش نے کہا کہ ہماری ماں بڑی عظیم خاتون تھی اس نے ہمیں چھوٹا بڑا کیا ہماری اچھی تربیت کی ہمیں اچھی تعلیم دی اور اب میرے بچے بھی سب کامیاب ہیں ایک بیٹا قومی احتساب بیورو میں بھی افسر ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں ہمیشہ ماں کی کمی کو محسوس کرتا رہوں گا اور اسے ہمیشہ یاد کرتا رہوں گا۔ آنجہانی شیرکانی کی موت پر کثیر تعداد میں تینوں وادیوں سے مہمان تعزیت کیلئے آئے تھے اور یہ سلسلہ مزید کئی دنوں تک جاری رہے گا۔

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

زیادہ پڑھی جانے والی خبریں

گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران

نیوز ہزارہ

error: Content is protected !!