گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی کاافسر اسلام آباد میں اربوں روپے پلازوں کا مالک نکلا۔

ایبٹ آباد: گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی کاافسر اسلام آباد میں اربوں روپے پلازوں کا مالک نکلا۔ ٹینور پوراہونے کے بعد دوبارہ ایبٹ آباد میں تعیناتی کروالیتاہے۔ اپنے والد کی تعمیراتی کمپنی کو جی ڈی اے کے تمام ٹھیکے دینے کا سلسلہ جاری۔اعلیٰ حکومتی شخصیات تک بھتہ پہنچانے کی بدولت سالوں سے ایبٹ آباد میں تعینات۔ رات گئے تک جی ڈی اے کے دفتر میں مشکوک سرگرمیاں جاری۔ تحقیقاتی اداروں سمیت صوبائی حکومت کے وزیروں اور مشیروں نے بھی خاموش اختیار کرلی۔ کوئی پوچھنے والا نہیں کہ سالوں سے بار بار جی ڈی اے میں کیوں تعینات ہو رہاہے؟

ذرائع کے مطابق ہمارے ملک کی سب سے بڑی بدقسمتی کرپشن اور لوٹ مارہے۔ کسی بھی طریقے سے اگر کوئی پڑھالکھا شخص کسی سرکاری عہدے پر تعینات ہو جائے تو پھر وہ اپنے فرائض منصبی کو بھول کر مال بنانے کی دوڑ میں لگ جاتا ہے۔ اور ایبٹ آباد کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس کے سرکاری محکموں میں ایسے کرپٹ افسران تعینات ہیں جو صرف پیسے کے پجاری ہیں۔ پیسے کے لئے یہ ہرجائز ناجائز کام کر گزرتے ہیں۔ ایساہی کچھ کھیل گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں بھی چل رہاہے۔ ذرائع کے مطابق گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں پچھلے کئی سالوں سے ایک ایسا افسر تعینات ہے جس کے بارے میں بتایاگیا ہے کہ موصوف کے والد کی ایک تعمیراتی کمپنی ہے۔ گلیات بیوٹی فکیشن کے منصوبوں سے لیکر چھوٹے موٹے تعمیراتی کاموں کے تمام ٹھیکے وہ اپنے والد کی کمپنی کو دیتا چلا آرہاہے۔ دوسال بعد جب اس افسر کا ٹینور پورا ہوتا ہے تووہ واپس اپنے محکمے میں چلا جاتاہے۔ دوتین ماہ وہاں گزار کر، پشاور میں بیٹھی بیوروکریسی اور اعلیٰ حکومتی شخصیات کی بدولت دوبارہ گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں اپنی تعیناتی کروالیتاہے۔ اوراپنے والد کے نام پررجسٹرڈتعمیراتی کمپنی جس کا مالک موصوف خود ہے۔ تمام ٹھیکے اندرون خانہ خانہ پری کرکے اس کمپنی کو دے کر سالانہ کروڑوں اربوں روپے کما رہاہے۔ذرائع کے مطابق یہ کھیل پچھلے کئی سالوں سے کھیلا جارہاہے۔ تحریک صوبہ ہزارہ کے رہنماؤں چند سال قبل اس افسر کیخلاف پریس کانفرنس میں صدائے احتجاج بھی بلند کی تھی۔ لیکن خفیہ ہاتھوں نے اپنا کام دکھایا اور تحریک صوبہ ہزارہ والے بھی خاموش ہوگئے۔

ذرائع کے مطابق جی ڈی اے میں سالوں سے تعینات یہ اس افسر نے خواتین کی ایک اچھی خاصی تعداد بھی جی ڈی اے میں بھرتی کی ہوئی ہے۔ اور چند خواتین پر یہ بہت مہربان بھی ہے۔ جن کو مستقل طور پرسرکاری گاڑیاں دے رکھی ہیں۔ جو سرکاری پٹرول پر سیرسپاٹے کرتی رہتی ہیں۔

ذرائع کے مطابق جی ڈی اے کیلئے خریدی جانیوالی مشینری اورگاڑیوں کی مد میں بھی وسیع پیمانے پر کرپشن کی اطلاعات ہیں۔ موصوف کے بارے میں بتایاگیاہے کہ اس نے اپنے تحفظ کیلئے نہ صرف حکومتی سطح پر بلکہ مقامی سطح پر بھی لوگوں کا ایک نیٹ ورک بنا رکھاہے۔ جو اپنے حصے وصول کرکے مذکورہ افسر کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق چند اداروں کے اہلکاروں کو بھی موصوف نے اپنے ساتھ ملا رکھاہے۔ جو حکومت کوتمام امور کی سب اچھا ہے کہ رپورٹ دیتے چلے آرہے ہیں۔ ایک طرف وزیر اعظم عمران خان کرپشن مکاؤ مہم پر لگے ہوئے ہیں۔ لیکن دوسری طرف جی ڈی اے میں ایسا افسر تعینات ہے جواسلام آباد میں نہ اربوں روپے کی مالیت کے پلازوں کا مالک ہے۔ بلکہ اپنا بنک بیلنس بڑھانے کیلئے بار بار جی ڈی اے میں ہی تعینات ہورہاہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ تحقیقاتی ادارے اور خیبرپختونخواہ حکومت کی بیوروکریسی ایسے افسروں کیخلاف کارروائی کرے جو بار بار ایک ہی محکمہ میں سالوں سے اپنی تعیناتیاں کرواتے چلے آرہے ہیں۔ پشاور میں بیٹھے بیوروکریٹس اور اعلیٰ حکومتی شخصیات عوامی مفادات کے برعکس کرپٹ افسران کی تعیناتیوں پر صرف اس لئے خاموش ہیں کہ نوٹوں سے بھرے بریف کیس ان کے گھروں میں خفیہ طور پر پہنچا دیئے جاتے ہیں۔ آخر ایسا کب تک چلے گا؟

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

زیادہ پڑھی جانے والی خبریں

گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران

نیوز ہزارہ

error: Content is protected !!