ایبٹ آباد سرکاری افسران کی ترقیاتی منصوبوں میں پارٹنرشپ۔ ٹھیکیداروں کی ملی بھگت سے کروڑوں غائب۔

ایبٹ آباد(وائس آف ہزارہ) سرکاری ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل پر تعینات اعلیٰ افسران پہلے پارٹنر شپ پر کام چلا رہے تھے جس کی کہانیاں صوبہ بھر میں چل رہی ہیں، ایک ادارہ کے سربراہ نے تو ایک سبزی فروش کو ٹھیکیدار بنا کر اس کی رجسٹریشن حاصل کرکے عملاََ اس کو ملازم رکھتے ہوئے کام شروع ہوئے بغیر بلکہ ٹینڈروں کی منظوری سے بھی قبل 97 کروڑ سے زائد کی ادائیگیاں کر دیں اور سالہا سال تک ان ترقیاتی منصوبوں پر ایک پائی کا بھی کام نہ ہو سکا، مسلسل عوامی شکایات پر ایک ترقیاتی منصوبے کی تحقیقات ہوئی اور کمشنر ہزارہ کی قائم کردہ تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے سنسنی خیز انکشافات ہوئے جن میں سے صرف ایک کا ذکر یہ ہے کہ ٹینڈر منظوری سے قبل 25 لاکھ کی ادائیگی کاغذات میں ایم بی مکمل کرکے یعنی 23 تاریخ ٹینڈر منظور ہوا اسی دن 25 لاکھ کا موقع پر کام بھی مکمل ہو گیا اور اس سے بھی دلچسپ بات یہ تھی کہ اس کی ادائیگی منظوری و پیمائش سے تین دن قبل یعنی 20 تاریخ کو کرکے نیا عالمی ریکارڈ قائم کیا گیا، اسی پر بس نہیں بلکہ دو سال بعد جب انکوائری کمیٹی نے موقع پر دورہ کیا تو عجب کرپشن کی عجب کہانی نکلی، دو سال پہلے کاغذات میں مکمل کام پر ایک روپے کا کام بھی نہیں کیا گیا تھا، اس پر کمشنر ہزارہ نے باقاعدہ مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی جس میں متعلقہ ادارہ کا انجینئر اوراینٹی کرپشن کا سرکل آفیسر شامل تھا کی رپورٹ کی روشنی میں اینٹی کرپشن کو فی الفور متعلقہ ایکسین، ایس ڈی او، سب انجینئر اور ٹھیکیدار کیخلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا مگر تاحال دو سال گزرنے کے بعد بھی وہ مقدمہ درج نہ ہو سکا اور لمبے ہاتھ اور اثر و رسوخ نے کام دکھایا اور یہ فائلیں ہی دبا لی گئیں۔

اسی پر بس نہیں بلکہ گزشتہ ماہ جون میں ایک ترقیاتی ادارہ سے تین سب انجینئرز کی اور دو دیگر اعلیٰ افسران کی ٹرانسفر ہوئی اور محکمہ میں دس کروڑ سے زائد کی رقم موجود تھی اسے سب نے مل کر شیر مادر سمجھ کر پرانی تاریخوں میں جب وہ اپنے عہدوں پر موجود تھے، ادائیگیوں کے انبار لگا دیئے جن میں تاحال بھی کروڑوں کے منصوبوں پر پانچ ماہ بعد بھی کام نہ ہو سکے، اس میں کرپشن کے ماہر اور دیدہ دلیز سب انجینئر نے تو پورے ملک میں نیا ریکارڈ قائم کیا کہ اپنے سینئر آفیسر جو کئی ماہ سے تبدیل ہو چکے تھے کو رام کرکے ساڑھے چھ کروڑ کی ادائیگی کردی اس میں اکثریت ادائیگیاں رننگ بل کی صورت میں یعنی 90% تک ادائیگی ہو گئی صرف 10% باقی رکھا گیا کہ کام جاری ہے جبکہ بعض منصوبوں پر تو کام کا تاحال آغاز بھی نہ ہو سکا، صرف ترقیاتی محکموں کے جان کے بلوں کو جمع کیاجائے تو وہ مجموعی رقم کا 80% بنتے ہیں جبکہ گیارہ ماہ میں صرف20% یہ اس کرپشن کا بڑا واضح اور ٹھوس ثبوت ہے۔

اس شراکت داری کے علاوہ ترقیاتی منصوبوں میں گمنام ناموں پر ترقیاتی منصوبوں کے ٹینڈر لے کر محض خانہ پری سے سرکاری خزانہ ہڑپ کرنا معمول بنتا جارہا ہے، ہر افسر اپنے چند افراد کے نام رجسٹرڈ کروا کر ٹھیکہ لے لیتا ہے اور عملاََ خود ہی مدعی ملزم اور جج کا کردار ادا کرتا ہے، بی کیو میں من پسند تبدیلیاں روزمرہ کا معمول ہیں، پی سی سی اور بلیک ٹاپ کے ٹینڈر لے کر سارا فنڈ ارتھ ورک اور دیواروں میں لگا کر یعنی اصل کام چھوڑ کر محض خانہ پری سے مال بنانا معمول بن چکا ہے، 50% ترقیاتی منصوبہ جات عملاََ زمین پر کسی جگہ وجود نہیں رکھتے بلکہ وہ صرف کاغذات کی زینت ہیں جس سے ان کا پوچھا جاتا ہے تو جواب ملتا ہے کہ ان کی لوکیشن اور کام کی نوعیت تبدیل کر دی گئی ہے حالانکہ جب اس کی لوکیشن یا کام کی نوعیت تبدیل ہو تو اس کیلئے قانون میں جو طریقہ کار درج ہے وہ دوبارہ ٹینڈر ہے اب تو صورتحال مزید ترقی کر گئی ہے، لاکھوں کے ٹینڈر بغیر اخبارات میں اشتہار کے اپنے من پسند افراد کو بی کیو میں تبدیلیاں کرکے دیئے جارہے ہیں، جدید دور کے جدید تقاضوں کومدنظر رکھتے ہوئے اگر ترقیاتی اداروں کے بعد کمیشن اور دیگر نذرانوں کے باقاعدہ نرخ درج کرکے بورڈ لگا دیئے جائیں تو زیادہ مناسب ہوگا تاکہ عام ٹھیکیدار بھی اس لوٹ مار و کرپشن اور چوری سے مستفید ہو سکے ورنہ یہ دھندہ چند ہی افراد تک محدود رہے گا، جلد ہی اس سلسلے میں متعلقہ محکمہ جات و ترقیاتی منصوبوں کی تفصیل پر مشتمل ایک سروے رپورٹ جاری کی جائے گی۔


یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

زیادہ پڑھی جانے والی خبریں

گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران

نیوز ہزارہ

error: Content is protected !!