اَساتذہ مسائل: زندہ رہنے کا حق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شبیرحسین امام۔

درس و تدریس کے عمل کو معیاری اْور یکساں نصاب کا حامل بنانے کے ساتھ فیصلہ سازوں کو اساتذہ کے ’حسب ِاطمینان‘ اقدامات و انتظامات کرنا ہوں گے تاکہ جملہ فریقین کی ذہنی آمادگی و شرکت سے ایک باسہولت نظم و نسق لاگو ہو۔ خیبرپختونخوا میں تحریک اِنصاف کی حکمرانی کا پہلا دورانیہ (دو ہزار تیرہ سے دوہزار اٹھارہ) اُور اگست دوہزار اٹھارہ سے جاری دوسرے دور حکومت میں کئی قابل ذکر (مثالی) اصلاحات ہیں اُور اِن میں بطور خاص ’ایجوکیشن سیکٹر ریفارم یونٹ (ESRU)‘ کے ذریعے تعلیم کے شعبے کی مجموعی اْور باریک بینی سے کارکردگی پر بھی نظر رکھی گئی۔ ذہن نشین رہے کہ ’ایجوکیشن سیکٹر پلان (ESP)‘ جو کہ استعداد کی بہتری سے متعلق حکمت عملی ہے وہ تعلیمی شعبے کے معیار اْور کارکردگی کے بارے میں سوچ بچار کا مجموعہ ہے‘ جس کے لئے برطانیہ‘ یورپی کمیشن‘ امریکی امدادی ادارہ (یو ایس ایڈ) اْور جرمن حکومت مجموعی طور پر 55 ہزار 338 ملین روپے فراہم کر چکی ہے لیکن یہ ساری کوششیں اْس وقت تک بارآور ثابت نہیں ہوں گی جب تک اساتذہ کی بھرتی میں اہلیت کے بعد اْنہیں اِس مقصد کے حصول کے لئے بھی قائل نہیں کر لیا جاتا کہ شعبہئ تعلیم صرف ملازمتوں کی فراہمی کا ذریعہ نہیں بلکہ اِس کی ایک معنویت اُور مقصدیت بھی ہے‘ جس کے اہداف حاصل کرنے میں منصوبہ سازوں سے زیادہ اساتذہ کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔

اساتذہ پر مبنی افرادی قوت کے جائز مسائل کا حل‘ امتیازات کا خاتمہ اُور اساتذہ کے حقوق بارے بھی کماحقہ غوروخوض اِس لئے بھی ضروری ہے تاکہ اساتذہ اطمینان قلب اْور توجہ سے اپنی تدریسی خدمات سرانجام دے سکیں۔ اساتذہ کی اکثریت کو تبادلوں اْور تعیناتیوں جیسے امور اْور اِن سے متعلق فیصلہ سازوں کے امتیازی روئیوں (جنہیں وہ فرعونیت سے تعیبر کرتے ہیں) کی شکایات رہتی ہیں اْور وہ چاہتے ہیں محکمے کے سبھی ملازمین کے لئے یکساں سلوک ہونا چاہئے۔ سیاسی اثرورسوخ‘ رشوت یا تعلقات کی بنا پر نہیں بلکہ ”میرٹ (حقیقی اہلیت)“ کے مطابق فیصلے ہونے چاہیئں۔

محکمانہ قواعد و ضوابط پر خاطرخواہ انصاف کے ساتھ عمل درآمد دیکھنے کی ایک ایسی ہی خواہشمند معلمہ کا تعلق خیبرپختونخوا کے ضلع ہری پور سے ہے جہاں بطور پرائمری ٹیچر ’محترمہ زاوش فدا‘ تعینات ہیں اُور چاہتی ہیں کہ اُنہیں مضافاتی دیہی علاقے کے پرائمری سکول شوراگ سے ضلع ایبٹ آباد کے شہری علاقے کے کسی تعلیمی ادارے میں تعینات کیا جائے۔ سال دوہزاراٹھارہ سے ڈیسیز کوٹے پر بطور ”مستقل ملازمت“ پرائمری ٹیچر تدریسی خدمات سرانجام دینے والی محترمہ زاوش آبائی طور پر (خیبرپختونخوا کے) ضلع ہری پور سے تعلق رکھتی ہیں لیکن اُن کی شادی ملحقہ ضلع ایبٹ آباد میں ہوئی‘ جہاں سے شوراگ گاؤں کے پرائمری سکول کا یک طرفہ فاصلہ چالیس کلومیٹر سے زیادہ ہے اُور اِس مسافت کے لئے اْنہیں ہر روز دو سے ڈھائی گھنٹے سفر کرنا پڑتا ہے چونکہ ضلع ہری پور کا شمار میدانی اضلاع جبکہ ضلع ایبٹ آباد کا شمار بالائی اضلاع میں ہوتا ہے اِس لئے موسم کے اثرات کی وجہ سے سکول کے آغاز و اختتام اْور تعطیلات کے دورانیئے بھی الگ الگ ہوتے ہیں اْور یوں شدید بارش حتیٰ کہ برفباری کی صورت بھی اْنہیں اپنے اہل خانہ کو چھوڑ کر منہ اندھیرے سکول کی راہ لینا ہوتی ہے جو شدید موسمی یا ہنگامی حالات کی صورت کبھی کبھار ممکن بھی نہیں ہو پاتا۔ تین سال چار ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اُور اِن مشکل ترین صبرآزما حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے محترمہ زاوش تدریسی خدمات سرانجام دینے اُور تبادلوں و تعیناتیوں پر سے پابندی اُٹھائے جانے کی دعائیں مانگتے ہر دن نئی اُمید کے ساتھ سفر پر نکلتی ہے اُور اَب جبکہ صوبائی حکومت نے اساتذہ کے بین اضلاعی تبادلوں‘ تعیناتیوں پر سے پابندی اُٹھا دی ہے تو ضلع ہری پور کے لئے شعبہئ تعلیم کا منتظم دفتر (ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر اُور اِن کا ماتحت عملہ) محترمہ زاوش فدا کی خدمات کسی دوسرے ضلع منتقل کرنے کا اجازت نامہ (NOC) جاری نہیں کر رہا جسے وہ اپنا قانونی حق قرار دیتی ہیں اُور چاہتی ہیں کہ انہیں بلاتاخیر تبادلے و تعیناتی کے لئے درکار محکمانہ اجازت نامہ جاری کیا جائے کیونکہ وہ (مبینہ طور پر) دفاتر کے چکر لگا لگا کر تھک چکی ہے جبکہ اُنہیں متعلقہ دفتری عملے کے (مبینہ) تضحیک آمیز رویئے سے بھی شکایت ہے۔ بغور دیکھا جائے تو یہ تبادلے اُور تعیناتی کا مسئلہ کسی ایک کا نہیں بلکہ کئی معلمات کا ہے جو محکمانہ قواعد و ضوابط اُور منتظمین کے صوابدیدی اختیارات سے پریشان بلکہ پریشان حال ہیں کیونکہ تبادلوں اُور تعیناتیوں پر دوبارہ پابندی کا اطلاق کسی بھی وقت ہو سکتا ہے اُور اگر یہ موقع بھی جاتا رہا تو مزید تین سے پانچ سال یا اِس سے بھی زیادہ عرصہ انتظار کرنا پڑ جائے گا۔ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں اُور سوشل میڈیا پر اپنے تبادلے کے جائز قانونی حق کے لئے آواز اُٹھانے والی مذکورہ ’پرائمری ٹیچر‘ نے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا‘ صوبائی وزیرتعلیم اُور دیگر متعلقہ فیصلہ سازوں سے مؤدبانہ درخواست کی ہے کہ اُسے دیگر ہم عصر اساتذہ کی طرح ملازمتی مقام تبدیل کرنے کی اجازت دی جائے۔ تدریسی عملے کے گوناگوں مسائل میں بالخصوص خواتین اساتذہ زیادہ متاثر دکھائی دیتی ہیں‘ جن کے لئے باسہولت اُور باعزت پبلک ٹرانسپورٹ کا سرکاری سطح پر انتظام نہ ہونے کی وجہ سے دور دراز دیہی علاقوں میں اِن کے لئے خدمات سرانجام دینا کسی امتحان (چیلنج) سے کم نہیں کہ جس کا اِنہیں ایک دو مرتبہ نہیں بلکہ ہر روز سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اساتذہ کا امتحان کب ختم ہوگا؟ لمحہئ فکریہ اُور انتہا ہے کہ جس معاشرے میں تدریسی عملے کو انصاف نہ مل رہا ہو‘ وہاں تعلیم‘ تربیت‘ شعور نظم و ضبط اْور خواندگی میں اضافے جیسے بنیادی اہداف کا حصول بھلا کیونکر عملاً ممکن ہو سکتا ہے؟کیا ہم کھلی آنکھوں (جاگتے ہوئے) خواب دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں!؟شاید اِس شعر کا موضوع اساتذہ ہی ہوں جن کی مشکلات و مسائل اُور سخت و تلخ حالات ِکار کے بارے میں شاعر سرفراز زاہد نے کہا تھا کہ ”زندہ رہنے کا حق ملے گا اُسے …… جس میں مرنے کا حوصلہ ہوگا۔“

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

زیادہ پڑھی جانے والی خبریں

گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران

نیوز ہزارہ

error: Content is protected !!