صحافی بخشیش الٰہی کے قاتل کہاں ہیں؟

تحریر:محمودالرحمن
قتل اتنا سنگین جرم ہے کہ اسلام نے ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے یہی وجہ ہے کہ شریعت کے ساتھ ساتھ دنیاوی قوانین میں بھی اس کے خلاف سخت سے سخت سزاؤں کا تعین کیا گیا ہے لیکن افسوس کہ اگر وطن عزیز کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ ایک عام شہری سے لے کر ملک کی نامور سیاسی سماجی و مذہبی شخصیات حتی کہ وزرائاعظم تک آج تک کسی کو انصاف نہیں مل سکا جو کہ لمحہ فکریہ ہے بخشیش الہی ہمارا صافی دوست تھا جس کو ہم سے بچھڑے آج تین سال ہو گئے ہیں اس کے قاتلوں کا بھی کوئی پتا نہ چل سکا آسمان کھا گیا کہ زمین نگل گئی بحثیت دوست تو ہم آج اس کی تیسری برسی منا رہے ہیں لیکن اس کی فیملی خصوصا بچوں کے لیے اک اک لمحہ اور اس کی ایک ایک یاد صدیوں کے غم برابر ہے اسی غم میں اس کی بوڑھی ماں بھی چل بسی پیاروں کے بچھڑنے کا غم اس کے اپنے ہی بتا سکتے ہیں باپ کے بغیر گھر کے معاملات کیسے چلتے اور بچے کیسے پلتے ہیں یہ بخشیش الہی کی بیوہ اور بھائیوں سے بہتر کوئی نہیں بتا سکتا وہ ایک کہاوت ہے کہ جہاں آگ لگی ہو تپش ادھر ہی ہوتی ہیدوسرا آدمی وہ غم محسوس نہیں کر سکتا جو اپنے کر رہے ہوتے ہیں اور یہی وہ سب سے بڑی خرابی ہے جس کی وجہ سے کسی کو انصاف نہیں مل رہا ریاستی اداروں سے لے کر حکومت تک کوئی کسی کے درد کو اپنا درد نہیں سمجھتا حالانکہ ہمارا پیارا مذہب تو کہتا ہے کہ تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں جس طرع کسی ایک عضو کی تکلیف پر پورا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے اسی طرع کسی مسلمان بھائی کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھنا چاہیے اور جب یہ احساس پیدا ہو جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ایک مسلمان معاشرے میں کوئی کسی کو قتل کرے اور مقتول کو انصاف نہ ملے بہرحال انہی کمزوریوں کی وجہ سے نہ جانے بخشیش کے خاندان کی طرع کتنے خاندان انصاف کے متلاشی ہوں گے وہ دن کبھی نہیں بھولتا کل کی طرع یاد ہے جب بخشیش بھائی کے خاندان پر ایک قیامت ٹوٹی اسے رمضان المبارک میں روزے کی حالت میں اپنے گھر کے قریب لورہ چوک کے مقام پر علی الصبح گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا اس کے چھوٹے چھوٹے بچے یتیم ہوئے اس وقت اس کی بیس دن کی معصوم بچی کی تصویریں دیکھ کے کلیجہ منہ کو آتا تھا واقعہ کے بعد ملکی تاریخ کے دیگر واقعات کی طرع ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کے بڑے بڑے دعوے کیے گئے متاثرہ خاندان کی امداد کے اعلان کیے گئے اور ہوا ویہی جو ہمیشہ مظلوم کے ساتھ ہوتا آیا ہے آج جہاں بخشیش کی فیملی والے انصاف کی راہ تک رہے ہیں وہاں صحافتی برادری صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون کہنے والوں سے داد رسی کی امید لگائے خود عدم تحفظ کا شکار بیٹھی ہے لہذا ہم ایک بارپھر حکومت اور حکومتی اداروں سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ بخشیش الہی قتل کیس کو ری اوپن کیا جائیاور ازسر نو تحقیقات کر کے اصل قاتلوں کو سامنے لایا جائے علاوہ ازیں بخشیش کے بچوں کے برسرروزگار ہونے تک ان کی کفالت اور تعلیم کی ذمہ داری بھی حکومت اٹھائے دعا ہے کہ اللہ رب العزت بخشیش کی مغفرت اور درجات بلند فرمائے اور اس کے خاندان خصوصا اس کے بچوں کو یہ عظیم صدمہ برداشت کرنے کی توفیق عطا کرے۔آمین

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

زیادہ پڑھی جانے والی خبریں

گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران

نیوز ہزارہ

error: Content is protected !!