ٹریفک ٹی او کی پٹائی کرنیوالی خاتون سمیت دیگرافراد حزب اختلاف پارٹی سے نکلے۔اعلیٰ پولیس افسران سربسجود۔

ایبٹ آباد(وائس آف ہزارہ) اعلی پولیس افسران نے اپنے ہی محکمے کے جونئیر اہلکاروں کو دوہرے نظام میں قربانی کا بکرا بنا دیا۔ایک بار پھر اعلی شخصیت کے عزیزوں نے ٹریفک پولیس کے ٹی او کی سرعام پٹائی کرتے ہوئے قانون اور حکومتی رٹ کو جوتی کی نوک پر رکھ دیا۔ کھلے عام غنڈہ گردی کا کمال گلیات کے سینکڑوں عوام اور ملک بھر سے آئے سیاحوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا مگر دولت اور اثرورسوخ کے سامنے اعلیٰ پولیس افسران سربسجود ہو گئے۔ غریبوں کو سرعام لتاڑنے والے اپنے ہی کانسٹیبل کو گالیاں دینے والے بااثر افراد پر ہاتھ ڈالنے کے بجائے، ٹی او اور مقامی ایس ایچ او کی معطلی اور انکوائری کا حکمنامہ جاری کرتے دکھائی دیے۔ مذکورہ بااثر افراد کا تعلق حزب اختلاف کی اہم پارٹی سے بتایا جاتا ہے۔افسران کے ڈھیر ہونے کی وجہ سے محکمہ اہلکاروں میں شدید بے چینی کی لہر موجود۔ ملازمین نے موقف اختیار کیا کہ اگر ہم ڈیوٹی ایمانداری و دیانتداری سے بھی کریں تو وہ جرم بن جاتی ہے جبکہ بااثر افراد ہمیں روند بھی ڈالیں تو کوئی سہارا تک نہیں دیا جاتا۔

قبل ازیں بھی تھانہ ڈونگا گلی میں ہی اسلام آباد سے آئی ہوئی آئی جی پی کی اہلیہ کو مکمل پروٹوکول نہ دینے پر ایس ڈی پی او، تھانے کا عملہ اور کنٹرول روم آپریٹر کو معطل کرکے اس ملک میں دوہرے نظام قانون کا پردہ چاک کیا گیا۔چھٹی ختم کرکے واپس آئے کانسٹیبل کو ایس پی کی گالیاں اور پھر توہین برداشت نہ کر پانے پر کا نسٹیبل کی جانب سے ایس پی کی دھلائی اور پھر میڈیا رپورٹس پر بحالیاں بھی ماضی کا حصہ ہیں۔اگر ہمیں بااثر مافیا کے زریعے یونیفارم کی بے حرمتی سہنی پڑی تو ہم بھی مجبوراً تمام تر حقائق میڈیا کے سامنے رکھیں گے۔

اس سلسلے میں نتھیاگلی ٹی او تشدد کیس کی میں جس طرح پولیس یونیفارم کی تذلیل ہوئی اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے بااثر سیاسی خاندان کے چشم وچراغ اپنی اہلیہ اور ڈرائیور کے ہمراہ نتھیاگلی آئے، انھوں نے گاڑی کھڑی کی تو ٹی او نے ٹریفک رش کے باعث دوسرے راستے سے جانے کی درخواست کی جس پر مذکورہ گاڑی میں بیٹھی خاتون غصہ میں آگئی اور سڑک میں ہی ٹی او پر تشدد شروع کردیا اسی اثناء میں خاتون کے ساتھ آئے مرد حضرات بھی ہاتھ صاف کرنے لگے اور ٹریفک کو۔ مکمل جام کر دیا بعد ازاں مقامی تھانہ ڈونگا گلی میں ٹی او کی درخواست پر زیر دفعات 337/A1،506,186,353,336اپی پی سی کے تحت مقدمہ درج کیا گیا، جس پر اعلیٰ پولیس افسران نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ٹی او نوید عباسی کی معطلی اور ایس ایچ او ڈونگاگلی علی خان جدون کیخلاف انکوائری کے احکامات جاری کردئیے۔

مذکورہ بالا واقع پر عوام کا شدید ردعمل سامنے آیا کہ کیا ٹریفک پولیس کا کام صرف کیری ڈبوں پک اپ و دیگر چھوٹی گاڑیوں کے غریب لوگوں کے چالان و جرمانے کرنا ہی ہے تو بڑی بڑی گاڑیوں کیخلاف کاروائی کون کرے گا۔ اعلی پولیس افسران تو صرف بڑی گاڑیوں کو پروٹوکول دینے کی ترغیب دینے پر ہی معمور دکھائی دے رہے ہیں۔شہریوں نے وزیراعظم پاکستان عمران خان سے سوال کیا کہ کیا یہی وی آئی پی کلچر کے خاتمے کا نعرہ ہے کہ پولیس طاقتوروں پر ترس کھائے اور غریب ریڑھی بانوں، تھڑے فروشوں اور غریب ڈرائیوروں پر تشدد کرے۔ شہریوں کی مختلف تنظیموں نے ڈی آئی جی ہزارہ،آئی جی کے پی کے، وزیراعلی اور وزیراعظم سے مطالبہ کیا کہ کہاں ہے آپ کا انصاف اور اسکی فراہمی کا دعوی،کیا یہ سب عوام سے جھوٹ اور دھوکہ دہی نہیں، اگر آپ انصاف کے دعویدار ہیں تو اس واقعے کی انکوائری عدلیہ سے کروائیں اور اس کے ذمہ دار بااثر سیاسی شخصیات کے عزیزوں اور انکی معاونت کرنے والے اعلیٰ پولیس افسران کو سزا دیں ورنہ عوام اس دھوکہ دہی کو قبول نہیں کریں گے۔

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

زیادہ پڑھی جانے والی خبریں

گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران

نیوز ہزارہ

error: Content is protected !!