پیشہ وربھکاریوں نے ایبٹ آباد شہر کو اپنا ہیڈکوارٹربنالیا۔

تحریر:حمداللہ خان

ایبٹ اباد شہر میں بھکاریوں کی یلغار شہر میں جگہ جگہ موجود پیشہ ور بھکاریوں نے عوام کا جینا محال کر دیا ہے ان بھکاریوں کا باقاعدہ ٹھیکیدار ہے جس نے ان کے علاقے اور مقام تقسیم کر رکھے۔ہیں ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ میں نہیں جا سکتا ایبٹ اباد میں گدا گری کخیلاف کاروائی کا اعلان کیا گیا مگر عملی اقدامات نہیں ا ٹھاے گئے ہیں۔ان میں بعض جرائم پیشہ افراد بھی اس میں شامل ہیں جبکہ شہر بھر میں کرایہ داروں کا ریکارڈ تو موجود ہے مگر بھکاریوں کا کوہی ڈیٹا موجود نہیں ہے ہرسال گرمیوں میں پنجاب اور سندھ کے علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگ یہاں اجاتے ہیں اور ان بھیک مانگنے والوں میں 90فی صد لوگ تندرست اور تواناہیں۔جن میں بعض نے خود کو معذور کرنے کا ڈرامہ رچایا ہوا ہے اور بعض نے جعلی پٹیاں باندی ہوہی ہیں ایک بھکاری نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کے وہ روزانہ پندرہ سو سے تین ہزار روپے تک کما لیتا ہے جس میں سے پچاس فی صد ٹھکیدار کو جاتا ہے اور باقی رقم ہمارے پاس رہتی ہے اور بھیک مانگنا ہمارا پیشہ ہے اور ہم بچوں کو بھی اس کی باقاعدہ ٹرینیگ دیتے ہیں ایبٹ اباد میں سردی پڑنے کے ساتھ ہی پنجاب کا رخ کر لیتے ہیں تین مہینے سے زیادہ ایک علاقہ میں نہیں رہتے ہیں مختلف شہروں میں سفر جاری رہتا ہے شہر بھر میں بھکاریوں کو دیکھ کر ہوں محسوس ہوتا ہے

 یہاں واقعی اتنی غربت دکھاء دیتا ہیں۔اس کی زندہ مثال ہر ہسپتال،ہر سڑک،ہر گلی،ہی کوچے پر کوئی نہ کوئی مانگنے والا ضرور دکھائی دیتا ہے۔

گداگری ایک ایسا معاشرتی ناسور ہے۔ جو ایک جرم اور کاروبارکی شکل اختیار کرچکاھے۔آپکا پالا پڑ جاتا ہے۔شہر کے ہر گلی،محلے اور چوک میں لنگڑا اور لولا گداگر تو دکھاے دیتا ہے۔لیکن انتہاء صحت مند گداگر بھی دکھائیں دیتے ہیں۔ اور ان بیک مانگنے والوں میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے

سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ گداگر کون ہے کہاں پیدا ہوتے ہیں اور کہاں جاتے ہیں۔اگر شام تک کسی ایک گداگر کی نگرانی کریں۔تو آپ کو پتہ چلے گا کہ یہ گداگر تندرست ہو کر اپنے ٹھکانے کو پہنچ جاتے ہیں۔گداگری کی کمائی ایک تحقیق کے مطابق ان کے مالک وصول کرتے ہیں اور ان کو صرف دو وقت کی روٹی دیتے ہیں۔ایک طرف تو حکومت بت غریب افراد کیلے بہ نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور (احساس پروگرام)جیسے منصوبہ شروع کر رکھے ہیں مگر اس کے باوجود بھکاریوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رھا ہے جو کے لمحہ فکریہ ہے بلخصوص بازاروں کے اندر بھیک مانگنے والی خواتین تو ساتھ چپٹ جاتی ہیں اور اس وقت تک نہیں چھوڑتے جب تک ان کو پیسہ نہ دیں ان بھکاریوں کے روپ میں ایک گرو ایسا بھی ہے خواتین کا جو جیب تک بھی کاٹ لیتی ہیں اور ساتھ چوری کی وارداتوں میں بھی ملوث ہیں

وطن عزیز کی شہریوں کو سب معلوم ہے اڈوں کا علم بھی ہے اور اس کاروبار کا علم بھی ہے۔مگر اس کا علاج کوئی نہیں ہے اس نامور طبقے کی کئی اقسام ہیں۔ سب سے ہم غیر ملکی لوگوں کی نظر میں بد نام ہوتے جا رہے ہیں۔پیشہ ور گداگروں کی وجہ سے معاشرے کے مستحق افراد بھی صدقہ اور خیرات سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔

یہی گداگر بعض اوقات مختلف وارداتوں کے سبب بھی بنتے ہیں۔مسجدوں اور بازاروں پر مانگنے والی عورتوں اور بچوں کا کوئی قصور نہیں۔ان کے پس پشت ایک مافیا متحرک ہے جو ان کو جبرن اس کام پر مجبور کر رہا ہے۔

ایبٹ آباد جیسے پرامن شہر میں گزشتہ دس سال سے گداگری اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔اور پاکستان کے مختلف شہروں سے خواجہ سرا اور گداگر جن کا تعلق سندھ اور پنجاب سے ہے۔لوگوں کو مجبور کرتے ہیں اور زبردستی پیسے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں عورتوں کے ساتھ بد تمیزی بھی دکھائی دیتی ہیں۔جبکہ ساتھ چھوٹی چوری چکاری کے ساتھ چند ایک بھکاری بھی گھروں کی جاسوسی کے ساتھ ڈکیتی تک کی وارداتوں تک بھی ملوث ہیں جبکہ زراہع کے مطابق ان کا مین آفس حویلیاں میں ہے اور جیاں سے یہ علاقوں میں جانے کے بعد دوبارہ شام کو ٹھکانے پر پونچ جاتے ہیں اور جہاں مزکورہ رقم جمعہ کراتے ہیں ان کے علاقہ اور مقام تقسیم ہیں اور یہ باقاعدہ ایک بھکاری دوسرے کے علاقہ میں نہیں جاتا ہے اور ٹھکیدار گرفتاری پکڑے جانے سمیت تمام معملات ٹھکیدار کے ذمہ ہیں

ملک میں گداگری بڑھتی جا رہی ہے اگر معاشرے میں اس کو ابھی سے نہ روکا گیا تو ایک نامور شکل اختیار کر جائے گا جس کو روکنا مشکل نہیں ناممکن ہو جائے گا۔

اللہ تعالی ہمارے شہرایبٹ آبادسے اس لعنت کو ختم کرے اور ہمیں حلال کی روزی کمانے کی توفیق دے(آمین)

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

زیادہ پڑھی جانے والی خبریں

گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران

نیوز ہزارہ

error: Content is protected !!